قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امامت و قیادت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہا ہے۔ انسان کو زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ہے۔ اسے سمع، بصر اور فواد تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو دوسری مخلوقات کو یا تو دی ہی نہیں گئیں یا اس کی نسبت بہت کم تر دی گئی ہیں۔ علم ہی كی بدولت وہ زمین پر خداوند عالم کا خلیفہ بنائے جانے كا اہل ہوا۔ جو قوم، طبقہ یا گروہ علم کی صفت میں دوسری اقوام، طبقوں اور گروہوں سے آگے بڑھ جائے گا اسی كے ہاتھ میں باقی اقوام، طبقوں اور گروہوں كی سیادت و قیادت ہوگی۔
قرونِ اولیٰ كے مسلمان علمی، تعلیمی اور فکری میدان میں دنیا کے امام تھےاسی لیے انھیں دوسری اقوام پر سیاسی، فوجی اور تہذیبی غلبہ بھی حاصل ہوسكا۔ اور صدیوں تك دنیا بجا طور پر یہ سمجھتی رہی کہ اگر تہذیب ہے تو مسلمانوں کی ہے، تمدن ہے تو مسلمانوں کا ہے۔اس وقت مسلمانوں کا پیش کردہ فلسفہ اور ان کے مرتب کردہ علوم عمرانی(Social Sciences) ہی نہیں ، ان کی سائنسی تحقیقات بھی دنیا سے اپنا لوہا منواتی رہیں۔
جب مسلمانوں نے علوم، فنون اور ٹیكنالوجی میں تحقیقات کا کام چھوڑ دیا تو وہ جمود کا شکار ہوتے چلے گئے۔ دوسری جانب اہل مغرب نےاس کام کا بیڑا اٹھالیا۔ تحقیقاتِ علمی کا آغاز کیا، نئے فلسفے اور نئے نظام ہائے فکر و عمل کی تشکیل شروع کردی۔جس كی وجہ سے مغرب کی طاقت روز بروز بڑھنا شروع ہو گئی۔اٹھارہویں صدی عیسوی تک مسلمانوں اور اہل مغرب کا یہ فرق اتنا نمایاں ہوگیا کہ مسلمان مغلوب ہو گئے اور مغربی قوتیں غالب آ گئیں۔ مغرب نے نہ صرف سیاسی اور عسکری غلبہ حاصل کیا بلکہ علمی تحقیقات کی بدولت ذہنی اور فکری غلبہ بھی حاصل کرلیا نتیجۃً اس کی تہذیب پوری دنیا پر چھا گئی۔
بیسویں صدی کے عظیم مفکر، مفسر، مجدد اور مصلح مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے امت مسلمہ کی زبوں حالی کا ادراک کیا اور اقامت دین کا فراموش كردہ تصور مسلمانوں کے ذہن میں ایك بار پھر واضح کیا۔ انہوں نے دین کے مکمل نظام زندگی کے طور پر احیاء کے لیے نہ صرف علمی اور فکری رہنمائی فراہم کی بلکہ عملاً ایك تحریک برپا کر دی۔ سید مودودیؒ نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں امت مسلمہ کی تعلیمی زبوں حالی کی وجوہات بیان کیں، جدید نظام ہائے تعلیم پر مدلل تنقید کی، اس کے نقائص اور مفسدات کو واضح کیا اور عہد حاضر کے تقاضوں کے مطابق نیا نظام تعلیم تجویز کیا۔ ۵جنوری ۱۹۴۱ء کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں خطاب کرتے ہوئے مولانا نے نئے تعلیمی نظام کی خصوصیات بیان کیں۔ آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلی چیز جو اس نئے نظام میں ہونی چاہیے وہ یہ کہ دینی اور دنیوی علوم کی تقسیم كو مٹا کر دونوں کو یک جان کر دیا جائے۔علوم کو دینی اور دنیوی دو الگ الگ قسموں میں بانٹنا دراصل دین اور دنیا کی علیحدگی کے تصوّر پر مبنی ہے اور یہ تصوّر غیر اسلامی ہے۔دوسری اہم خصوصیت جو اس نظامِ تعلیم میں ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میں ہر طالب علم کو مجموعہ علوم بنانے کے بجائے اختصاصی تعلیم کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو سالہا سال کے تجربات کے بعد دنیا میں مفید پایا گیا ہے۔ تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تعلیم دینے والے اور تعلیم پانے والے دونوں کے سامنے ایک متعین اور واضح مقصد زندگی اور منتہائے سعی و عمل ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ ان سب کو مسلکِ خدا پرستی کی امامت دنیا میں قائم کرنے کے لیے جہاد کبیر کرنا ہے۔ یہ مقصد اس نظام کی ہر چیز میں اسی طرح کام کرے گا، جس طرح انسانی جسم کے ہر رگ، ہر ریشے اور ہر حرکت میں اس کی روح کام کرتی ہے۔ طلبہ کی شخصی زندگی، ان کے باہمی اجتماعات، ان کے کھیل کود اور تفریحات اور ان کے درس وتدریس اور مطالعہ وتحقیق کے تمام مشاغل میں اسی مقصد کی کارفرمائی ہو نی چاہیے۔ جامعہ تفہیم القرآن اسلام آباد کے قیام کا بنیادی مقصد سید مودودیؒ كے اسی وژن كے مطابق عہد حاضر کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر تعلیم و تربیت اور علمی تحقیات فراہم کرنا ہے تاكہ امت کے احیاء کے لیے قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والے افراد تیار كیے جا سکیں۔
اسلامی تصور تعلیم کے ذریعےسے عادلانہ معاشرے کی تشکیل اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں موثر اور قائدانہ کردار ادا کرنے والے افراد کی تیاری
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جو ہمیں ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے ہدایات فراہم کرتا ہے۔ دین کے مکمل نظامِ حیات ہونے کا تقاضہ بھی یہی ہےاور دین کی تعلیمات بھی، کہ علوم دینی اور غیر دینی نہیں بلکہ نافع اور غیر نافع ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے دورِ انحطاط اور طویل غلامی نے امت کی اکثریت کو ان تصورات کی عملی تفہیم سے نا آشنا کر دیا ہے۔ فكرِ اسلامی كے حامل ان تصورات کی رہنمائی میں ایسے افراد کی تیاری جامعہ تفہیم القرآن اسلام آباد کے پیشِ نظر ہے جو امت مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ میں قائدانہ کردار اد ا کر سکیں۔
جامعہ تفہیم القرآن وفاقی دارالحکومت کے مرکزی مقام، زیرو پوائنٹ، سے چند قدم کے فاصلے پر، اسلام آباد میں تعلیمی مقاصد کے لیے مختص ایچ (H) سیکٹرز کی بیلٹ میں واقع ہے۔ جامعہ کا پلاٹ دو ایکڑ سے زائد رقبہ پر محیط ہے۔ پانچ منزلہ عمارت تعمیر ہو چکی ہے جس میں جامعہ کئی سالوں سے مختلف تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہے۔ مزید تعمیرات کی گنجائش بھی موجود ہے اور ضرورت بھی۔
سرپرستِ اعلیٰ | سراج الحق |
صدر جامعہ | پروفیسر محمد ابراہیم خان (سابق سینیٹر) |
ممبر | انجینئر نصراللہ رندھاوا |
ممبر | زبیر صفدر |
ممبر | ڈاکٹر محمد شاہد رفیع |
ممبر | خالد فاروق |
۔ قرآن حکیم کا فہم عام کرنا
۔ معاشرے کے مختلف عمر اور علمی سطح کے حضرات و خواتین میں دینی تعلیمات کے فہم کو فروغ دینا
جامعہ تفہیم القرآن پروفیسر محمد ابراہیم (سابق سینیٹر۔سینٹ آف پاکستان) کی سربراہی میں ایک علمی اور تحقیقی ادارہ ہے جو جدید طرزِتعلیم کو اسلامی اسلوب میں ڈھالتے ہوئے نسلِ نو کو اسلام سے ہم اہنگ کر رہا ہے
جامعہ تفہیم القرآن جملہ حقوق محفوظ ۔ ©